اگر گذشتہ دو دہائيوں کے دوران شمالی سندھ میں ہندو لڑکیوں کے مذہب تبدیل کرنے کی کہانیاں اٹھا کر دیکھیں تو آپ کو ساری کہانیاں ایک دکھائی دیں گی۔
وہی ہزاروں کے ہجوم، تکبیر کے نعرے، کلاشنکوف اور جدید خود کارہتھیاروں کی فائرنگ، بھرچونڈی کے پیر کے ہاتھ میں ڈنڈا اور مذہب تبدیل کرنے کی تقریب کا وقوع پذیر ہونا۔
بھرچونڈی، مٹیاری اور امروٹ درگاہیں، رضاکارانہ یا جبری سے قطع نظر، تاریخی طور پر تبدیلیِ مذہب کے بڑے مرکز رہے ہیں۔ جب کہ آج بھی بھرچونڈی، امروٹ، لاڑکانہ، جیکب آباد اور کراچي اور تھرپارکر میں سامارو، سندھ میں ایسے مذہب تبدیل کرنے کے ایسے مراکز بتائے جاتے ہیں، جہاں ہر ماہ متعدد ہندو لڑکیوں کے مبینہ طور پر جبراً مذہب تبدیل کرنے کے واقعات ہوتے ہیں۔
اگر آپ گھوٹکی ضلع سندھ میں رہتے ہیں، اگر آپ کو زمین یا پلاٹ پر سے قبضہ چھڑوانا ہے، قبضہ کروانا ہے، اگر کسی نے کسی ہندو لڑکے یا لڑکی کا ‘مذہب تبدیل’ کروانا ہے تو آّپ بھرچونڈی کے پیروں سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ یہ جو کراچي میں تو‘نو گو ایریاز’ اب بنے ہیں، شمالی سندھ میں بھرچونڈی تب سے ‘نو گو ایریا’ ہے، جب یہ لفظ میڈیائي استعمال میں اتنا نہیں آیا تھا جتنا اب ہے۔ بھرچونڈی عام شہریوں یا پولیس انتظامیہ کے لیے ‘علاقہ غیر’ ہے۔
اسی بھرچونڈی کے ایک پیر عبد الحق عرف میاں مٹھو پی پی پی کے ایم این اے منتخب ہوتے آئے ہیں، میاں مٹھو جو گذشتہ دو دہائیوں سے اپنے بیٹوں سمیت ہندو لڑکیوں کا مذہب تبدیل کرانے کے بانی رہے ہیں۔ رنکل کماری کے اغوا اور پھر مذہب تبدیل کرنے اُس واقعے کی مبینہ سرپرستی میں بھی انہی کا نام لیا جاتا ہے، جس کی وڈیوز اب وبائی جرثوموں کی طرح انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر پھیلی ہوئي ہیں۔
انہی وڈیوز میں، ہجوم اور علاقے کے طاقتور پیروں کے نرغے میں گھری رنکل کماری کو اس کے حال پر چھوڑ کر پولیس کے ایک افسر کو بھاگتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
گذشتہ پچیس فروری کو میرپور ماتھیلو کے صوفی محلے میں ایک نوجوان ہندو لڑکی رنکل کماری اس وقت اپنے گھر سے غائب ہوگئی جب اس کے گھر والے گھر سے کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔
مجھے انیس سالہ رنکل کماری کے ماموں ڈاکٹر پون کمار نے ٹیلیفون پر میرپور ماتھیلو سے بتایا کہ اس حد تک تو صحیح ہے کہ جب وہ ساری رات گھر نہیں آئي تو ہم نے سمجھ لیا کہ اس نے گھر سے بھاگ کر اپنی مرضی سے جا کر شادی کرلی ہے لیکن ہم نے سوچا کم از کم اسے اپنے والدین سے تو ملایا جائے گا اور اس کے والدین یہ جاننا چاہیں گے۔
دوسرے روز اسے گھوٹکی سیشن کورٹ میں پیش کیا گیا جہاں کمرۂ عدالت میں وکلا اور عدالتی عملے کی موجودگی میں، رنکل کماری نے کہا کہ نوید شاہ اسے ورغلا کر، زبردستی اور دھوکے سے میاں مٹھو کے ہاں لایا ہے اور وہ اپنے والدین کے ساتھ جانا چاہتی ہے لیکن جج نے لڑکی کا یہ بیان ریکارڈ نہیں کیا۔
دو دن بعد ہزاروں لوگوں کے ہجوم کے ساتھ، جن میں بہت سے مسلح بھی تھے، رنکل کماری پھر عدالت میں پیش کی گئی، جہاں اس کے وکیل اور کیس کے فریادی کے کسی کو بھی اس سے نہیں ملنے دیا گیا۔
تاریخ میں پہلی بار، دفعہ ایک سو چونسٹھ کا بیان کمرہ عدالت کے اندر سینکڑوں افراد اور باہر ہتھیاربند جتھوں اور نعرہ زن ہجوم کی موجودگی میں ریکارڈ کیا گیا۔
رنکل کماری کے والدین اور ہندو پنچایت کے وکیل محمد مراد لونڈ تھے جنہیں ان کے ساتھی وکلا نے طعنے دیے کہ وہ کیوں ‘کافروں’ کے وکیل بنے ہوئے ہیں۔
‘دلہے’ کا سلمان تاثیر کے قاتل کی ممتاز قادری کی طرح استقبال کیا گیا۔ جج کو کمرہ عدالت میں موجود ساٹھ ستر وکلا اور ہجوم نے مبارک باد دی۔ ایک وکیل نے جج سے کہا ‘آپ کا بڑا امتحان تھا آپ اچھے نمبروں سے پاس ہوگئے’۔
ہجوم اور وکلا پی پی پی ایم این اے میاں مٹھو کی قیادت میں کاروں جیپوں کے قافلے، کلاشنکوف کی کئي سو راؤنڈز اور نعرۂ تکبیر کے ساتھ روانہ ہوا۔ اب رنکل کماری کا نیا نام ‘فریال شاہ’ ہے۔
تقسیم کے فسادات کے دوران بھی سندھ سے ہندو برادری نے ہندوستان کے لیے اتنی تعداد میں نقل مکانی نہیں کی تھی جتنی اپنی لڑکیوں کے مذہب تبدیل کرنے کی وجہ سے کی ہے یا کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا ان کے موقف کو شایع، نشر یا بیان نہیں کرتا۔ ایک ان کہی اور غیر مصدقہ کہانی تو یہ بھی ہے کہ گذشتہ چند برسوں کے دوران سندھ میں ایک سو کے قریب نوجوان ہندو لڑکیوں نے جبراً تبدیلیِ مذہب اور اپنے اور والدین کے دہشت زدہ کیے جانے سے دل برداشتہ ہوکر خود کشیاں کی ہیں۔
No comments:
Post a Comment