کبھی کویتا تو کبھی رنکل کماری
’روتی ہوئی ڈاکٹر لتا اور چیختی ہوئی رنکل کماری کی کہانی کون شائع کرے گا اور پاکستان کی عزت داؤ پر لگانے والوں سے کون پوچھے گا؟
یہ الفاظ ہیں سماجی کارکن اور کالم نگار ماروی سرمد کے جنہوں نے اسلام آباد پریس کلب میں ہندو لڑکیوں کی جبراً شادیوں کے خلاف پریس کانفرنس کی۔ اس پریس کانفرنس میں جیکب آباد کی رہائشی ڈاکٹر لتا کے والد ڈاکٹر رمیش کمار اور میر پور ماتھیلو کی رہائشی رنکل کماری کے چچا راج کمار بھی شریک تھے۔
متعلقہ عنوانات
پاکستان
یاد رہے کہ دونوں ہندو لڑکیوں کو اغوا کر کے ان کی شادی کر دی گئی ہے اور معاملہ سپریم کورٹ میں چل رہا ہے۔ ہندو کمیونٹی کا الزام ہے کہ پیپلز پارٹی کے رکنِ قومی اسمبلی میاں مٹھو لڑکیوں کے اغوا کے معاملے میں ملوث ہیں۔
بی بی سی کے نامہ نگار حفیظ چاچڑ کے مطابق ماروی سرمد نے صحافیوں کو بتایا کہ دونوں لڑکیوں سے زبردستی بیانات ریکارڈ کیے گئے تھے جن کو ٹی وی پر نشر کیا گیا تھا اور جب دونوں لڑکیوں کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس افتخار چودھری کے سامنے پیش کیا گیا تو ڈاکٹر لتا روتے روتے بے ہوش ہو گئیں اور رنکل کماری نے چیختے ہوئے کہا کہ وہ اپنی ماں کے پاس جانا چاہتی ہیں۔
انہوں نے کہا: ’ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ سٹوری کا یہ پہلو کون کور کرے گا، ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی عزت کو جن لوگوں نے داؤ پر لگایا ان سے کون پوچھے گا اور یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ جن لوگوں نے اسلام کو بدنام کیا، ان کا گریبان کو پکڑے گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ سماعت میں حکم دیا تھا کہ دوبارہ بیان دینے سے پہلے دونوں لڑکیوں کو آزاد ماحول میں رکھا جائے اور ان کو تین ہفتے کےلیے کراچی کے ایک شیلٹر ہوم میں بھیج دیا گیا اور عدالت یہ سمجھ گئی ہے کہ دونوں لڑکیوں سے زبردستی بیانات لیےگئے تھے۔
رنکل کماری کے وکیل امر لعل نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ ان معاملوں میں ایجنسی، فوج یا کوئی سرکاری ادارہ ملوث ہے لیکن کچھ لوگ ہیں جن کا یہ کاروبار ہے۔
انہوں نے بتایا، ‘کبھی انیتا کو بیچتے ہیں، کبھی جیکب آباد سے کویتا کو اٹھا کر بزورِ شمشیر مسلمان کرتے ہیں، کبھی جیکب آباد سے سپنا کو اٹھاتے ہیں تو کبھی پنو عاقل سے پنکی کو لے جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان تمام واقعات کی تحقیقات کےلیے عدالتی کمیشن قائم کیا جائے اور سندھ میں گزشتہ چھ ماہ سے ان واقعات میں تیزی آئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت پیپلز پارٹی کے رکنِ قومی اسمبلی میاں مٹھو کے خلاف کارروائی کرے کیونکہ ان کے خلاف مختلف تھانوں میں ایک سو سترہ مقدمات درج ہیں جبکہ ان کے دو بیٹوں کے خلاف بھی تیرہ مقدمات درج ہیں اور ان کے خلاف تمام مقدمات مسلمانوں نے ہی درج کروائے ہیں۔
ڈاکٹر لتا کے والد ڈاکٹر رمیش کمار نے بتایا کہ یہ تمام معاملات حوس پرستی کی عکاسی کرتے ہیں اور صرف نوجوان لڑکیوں کو اغوا کر کے مسلمان بناتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر ان لوگوں کو اسلام کا اتنا شوق ہے تو وہ بوڑھی عورتوں اور مردوں کو اغوا کرکے مسلمان کیوں نہیں بناتے ہیں۔
یہ الفاظ ہیں سماجی کارکن اور کالم نگار ماروی سرمد کے جنہوں نے اسلام آباد پریس کلب میں ہندو لڑکیوں کی جبراً شادیوں کے خلاف پریس کانفرنس کی۔ اس پریس کانفرنس میں جیکب آباد کی رہائشی ڈاکٹر لتا کے والد ڈاکٹر رمیش کمار اور میر پور ماتھیلو کی رہائشی رنکل کماری کے چچا راج کمار بھی شریک تھے۔
متعلقہ عنوانات
پاکستان
یاد رہے کہ دونوں ہندو لڑکیوں کو اغوا کر کے ان کی شادی کر دی گئی ہے اور معاملہ سپریم کورٹ میں چل رہا ہے۔ ہندو کمیونٹی کا الزام ہے کہ پیپلز پارٹی کے رکنِ قومی اسمبلی میاں مٹھو لڑکیوں کے اغوا کے معاملے میں ملوث ہیں۔
بی بی سی کے نامہ نگار حفیظ چاچڑ کے مطابق ماروی سرمد نے صحافیوں کو بتایا کہ دونوں لڑکیوں سے زبردستی بیانات ریکارڈ کیے گئے تھے جن کو ٹی وی پر نشر کیا گیا تھا اور جب دونوں لڑکیوں کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس افتخار چودھری کے سامنے پیش کیا گیا تو ڈاکٹر لتا روتے روتے بے ہوش ہو گئیں اور رنکل کماری نے چیختے ہوئے کہا کہ وہ اپنی ماں کے پاس جانا چاہتی ہیں۔
انہوں نے کہا: ’ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ سٹوری کا یہ پہلو کون کور کرے گا، ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی عزت کو جن لوگوں نے داؤ پر لگایا ان سے کون پوچھے گا اور یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ جن لوگوں نے اسلام کو بدنام کیا، ان کا گریبان کو پکڑے گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ سماعت میں حکم دیا تھا کہ دوبارہ بیان دینے سے پہلے دونوں لڑکیوں کو آزاد ماحول میں رکھا جائے اور ان کو تین ہفتے کےلیے کراچی کے ایک شیلٹر ہوم میں بھیج دیا گیا اور عدالت یہ سمجھ گئی ہے کہ دونوں لڑکیوں سے زبردستی بیانات لیےگئے تھے۔
رنکل کماری کے وکیل امر لعل نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ ان معاملوں میں ایجنسی، فوج یا کوئی سرکاری ادارہ ملوث ہے لیکن کچھ لوگ ہیں جن کا یہ کاروبار ہے۔
انہوں نے بتایا، ‘کبھی انیتا کو بیچتے ہیں، کبھی جیکب آباد سے کویتا کو اٹھا کر بزورِ شمشیر مسلمان کرتے ہیں، کبھی جیکب آباد سے سپنا کو اٹھاتے ہیں تو کبھی پنو عاقل سے پنکی کو لے جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان تمام واقعات کی تحقیقات کےلیے عدالتی کمیشن قائم کیا جائے اور سندھ میں گزشتہ چھ ماہ سے ان واقعات میں تیزی آئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت پیپلز پارٹی کے رکنِ قومی اسمبلی میاں مٹھو کے خلاف کارروائی کرے کیونکہ ان کے خلاف مختلف تھانوں میں ایک سو سترہ مقدمات درج ہیں جبکہ ان کے دو بیٹوں کے خلاف بھی تیرہ مقدمات درج ہیں اور ان کے خلاف تمام مقدمات مسلمانوں نے ہی درج کروائے ہیں۔
ڈاکٹر لتا کے والد ڈاکٹر رمیش کمار نے بتایا کہ یہ تمام معاملات حوس پرستی کی عکاسی کرتے ہیں اور صرف نوجوان لڑکیوں کو اغوا کر کے مسلمان بناتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر ان لوگوں کو اسلام کا اتنا شوق ہے تو وہ بوڑھی عورتوں اور مردوں کو اغوا کرکے مسلمان کیوں نہیں بناتے ہیں۔
courtecy - bbc urdu
No comments:
Post a Comment